Wednesday, 19 October 2016

روز کا غم تو کہیں اے دل شیدا جائے

روز کا غم تو کہیں اے دلِ شیدا جائے
وہ نہ آئیں نہ سہی موت مِری آ جائے
لطف تو جب ہے تمنا کو بھی لیتا جائے
آپ کا تیر مِرے دل سے نہ تنہا جائے
شکوۂ ظلم و ستم شوق سے عشاق کریں
مگر اتنا کہ وہ بے درد نہ گھبرا جائے
آپ بھر پائے گا کس واسطے روکے کوئی
کوچۂ یار میں جائے،۔ دلِ شیدا جائے
تم جو کہہ دو تو ابھی ہنسنے لگیں غنچہ و گُل
تم جو ہنس دو تو خزاں جائے، بہار آ جائے
کچھ تجھے بھی تو ہو معلوم کہ الفت کیا ہے
لطف آ جائے، تِرا دل جو کہیں آ جائے
کیا اسی پردۂ غفلت میں ہے تکمیلِ حیات
سانس لیتا رہوں میں وقت گزرتا جائے
نوحؔ طوفانِ محبت سے یہ کچھ دور نہیں
بہتے بہتے کوئی نزدیک تِرے آ جائے

نوح ناروی

No comments:

Post a Comment