روز کا غم تو کہیں اے دلِ شیدا جائے
وہ نہ آئیں نہ سہی موت مِری آ جائے
لطف تو جب ہے تمنا کو بھی لیتا جائے
آپ کا تیر مِرے دل سے نہ تنہا جائے
شکوۂ ظلم و ستم شوق سے عشاق کریں
آپ بھر پائے گا کس واسطے روکے کوئی
کوچۂ یار میں جائے،۔ دلِ شیدا جائے
تم جو کہہ دو تو ابھی ہنسنے لگیں غنچہ و گُل
تم جو ہنس دو تو خزاں جائے، بہار آ جائے
کچھ تجھے بھی تو ہو معلوم کہ الفت کیا ہے
لطف آ جائے، تِرا دل جو کہیں آ جائے
کیا اسی پردۂ غفلت میں ہے تکمیلِ حیات
سانس لیتا رہوں میں وقت گزرتا جائے
نوحؔ طوفانِ محبت سے یہ کچھ دور نہیں
بہتے بہتے کوئی نزدیک تِرے آ جائے
نوح ناروی
No comments:
Post a Comment