Wednesday, 19 October 2016

مزا الفت میں کیا دونوں کو حاصل ہو نہیں سکتا

مزہ الفت میں کیا دونوں کو حاصل ہو نہیں سکتا
مگر مشکل ہے ایک ان کا مِرا دل ہو نہیں سکتا
جفا و رشک سہنے کے قابل ہو نہیں سکتا
مِرا دل ہو بھی، ہو سکتا ہے تِرا دل ہو نہیں سکتا
کسی کے رنج و غم میں کوئی شامل ہو نہیں سکتا
مِرا ساتھی، مِرا حامی، مِرا دل ہو نہیں سکتا
عزیزِ خلق بننے کو وفا کی بھی ضرورت ہے
فقط پہلو میں ہونے سے کوئی دل ہو نہیں سکتا
الٰہی اڑ گئی دنیا سے کیا تاثیر الفت کی
وہ کہتے ہیں ہمارا دل تِرا دل ہو نہیں سکتا
وہ فرماتے ہیں لاؤ مجھ کو دیدو کس طرح دے دوں
مِرے پہلو میں پیدا دوسرا دل ہو نہیں سکتا
وفا سے آدمی تسخیر کر لیتا ہے عالم کو
وہ دل میں رہتے رہتے کیا مِِرا دل ہو نہیں سکتا
ہم آہیں کیا کریں، انجام آہوں کا سمجھتے ہیں
ہوا میں بھی شگفتی غنچۂ دل ہو نہیں سکتا
وہ موسٰی ہی تھے غش کھا کر گِرے جو طورِ سِینا پر
ہمیں جلوے سے سکتہ بھی تو اے دل ہو نہیں سکتا
جگہ دوں کیا سمجھ کر میں تِرے پیکاں کو پہلو میں
مِرا دل بن نہیں سکتا، مِرا دل ہو نہیں سکتا
پرائی چیز مل جائے تو پھر بھی وہ پرائ ہے
کوئی لے کر مِرا دل مالکِ دل ہو نہیں سکتا
نگاہوں سے نگاہیں لڑ کر اکثر چھپ بھی سکتی ہیں
مگر مل کر کبھی دل سے جدا دل ہو نہیں سکتا
وفا و عشق میں بھی کوئی شے ذاتی فضیلت ہے
تڑپنے کو جگر تڑپے، مگر دل ہو نہیں سکتا
لگاوٹ اور پھر اس پر لگاوٹ خوبرویوں کی
انہیں تو دل بھی دے کر کوئی بیدل ہو نہیں سکتا
ہوائے گل اڑا لے جائے، لیکن کیا تماشا ہے
عنادِل کے تلفظ سے، جدا دل ہو نہیں سکتا
وفا سے اس کو مطلب ہے جفا سے واسطہ اس کو
جنابِ نوحؔ کا دل، آپ کا دل ہو نہیں سکتا

نوح ناروی

No comments:

Post a Comment