آرزو مندِ شہادت،۔۔۔۔ آہ بھر کر رہ گیا
روح کھنچ کر رہ گئی کھنچ کر جو خنجر رہ گیا
کیا بتاؤں کس طرح دل میں وہ خنجر رہ گیا
آرزو ہو کر سمایا،۔۔۔ درد بن کر رہ گیا
ماجرائے قتل کہنے کو زباں پر رہ گیا
دل فدا کرنے کو آمادہ تھے لاکھوں اہلِ عشق
سر فدا کرنے کا سہرا میرے ہی سر رہ گیا
اضطراب و ضعف کے حملے تھے کوئے یار میں
میں اٹھا، اٹھ کر چلا، کچھ دور چل کر رہ گیا
کشتگانِ عشق تو ملکِ عدم کو چل بسے
اب تمہیں تم رہ گئے خنجر ہی خنجر رہ گیا
چار حرفِ آرزو کی شرح میں طول اِس قدر
ایک دفتر لکھ گیا،۔۔۔ اور ایک دفتر رہ گیا
دل تہ و بالا ہوا،۔۔ لیکن نہ نکلا خارِ غم
اِس طرف سے اُس طرف کروٹ بدل کر رہ گیا
گو وہی دل ہے، مگر وہ جوشِ خونِ دل نہیں
اڑ گئی ساغر سے مۓ ساغر ہی ساغر رہ گیا
زخمِ دل جتنے ہوئے تھے خشک پھر رِسنے لگے
تم نے لیں انگڑائیاں،۔۔۔ میں آہ بھر کر رہ گیا
آپ آئے،۔۔ آپ بیٹھے،۔۔ آپ نے پوچھا مزاج
پھر بھی مضطر دل مِرا مضطر کا مضطر رہ گیا
موت پھر وہ موت ان کے ناتواں بیمار کی
ایک ہچکی آ گئی چپکے سے مر کر رہ گیا
کھینچ کر لانا تھا تیرِ ناز کو اے جذبِ شوق
دل کے اندر رہنے والا دل کے باہر رہ گیا
غیر ممکن تھا مریضانِ محبت کا علاج
جس نے دیکھی نبض وہ خاموش ہو کر رہ گیا
مٹ گیا دل ہی تو شکرِ دل نوازی کیا کروں
سر گیا تو پھر کہاں احسان سر پر رہ گیا
ہے پشیمانی ستم اہلِ ستم کے واسطے
جب نہ گردن کٹ سکی کٹ کر وہ خنجر رہ گیا
کیوں نہ بہتے اشک بڑھ جاتا اگر ہیجانِ غم
خیر گزری نوحؔ یہ طوفان دب کر رہ گیا
نوح ناروی
No comments:
Post a Comment