کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
مجھ سے انکار رہا، غیر سے اقرار رہا
کچھ سروکار نہیں، جان رہے یا نہ رہے
نہ رہا ان سے تو پھر کس سے سروکار رہا
شبِ خلوت وہی حجت، وہی تکرار رہی
طالبِ دِید کو ظالم نے یہ لکھا خط میں
اب قیامت پہ مِرا وعدۂ دیدار رہا
حالِ دل بزم میں اس شوخ سے ہم کہ نہ سکے
لبِ خاموش کی صورت، لبِ اظہار رہا
کچھ خبر تھی تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تِری یاد میں بے دار رہا
اک نظر نزع میں دیکھی تھی کسی کی صورت
مدتوں قبر میں بے چین دلِ زار رہا
دل ہمارا تھا، ہمارا تھا، ہمارا، لیکن
ان کے قابو میں رہا، ان کا طرفدار رہا
عمر ہنس کھیل کے اس طرح گزاری ہے اے ہجرؔ
دوست کا دوست رہا، یار کا میں یار رہا
ہجر شاہجہانپوری
نواب ناظم علی خان
No comments:
Post a Comment