Wednesday, 19 October 2016

گر وقت کڑی دھوپ ہی بن جائے تو کیا ہو

گر وقت کڑی دھوپ ہی بن جائے تو کیا ہو
وہ پھول سا چہرہ بھی جو کمہلائے تو کیا ہو 
موج مۓ گل رنگ کی لرزش ہے کہ رفتار 
اے بادہ وشو! یوں جو چھلک جائے تو کیا ہو 
ڈسنے کو چڑھی آتی ہے ناگن سی شبِ تار 
صندل سا بدن بھی جو نہ یاد آئے تو کیا ہو 
اس بت کی رگِ جاں کے قرِیں بھی تو وہی ہے 
واعظ کی سمجھ میں جو یہ آ جائے تو کیا ہو 
انگڑائی ہے، یا جام سے ابلی ہوئی صہبا 
ایسے میں جو کوئی پی کے بہک جائے تو کیا ہو 
توبہ بھی کروں۔۔ اور گھٹائیں بھی نہ اٹھیں 
پر زلفِ سِیہ ابر سی لہرائے تو کیا ہو 
اے ماہ وشو،۔۔ گل بدنو،۔۔ عشوہ طرازو 
تم کو بھی کوئی گر یوں ہی ترسائے تو کیا ہو

اسرار ناروی

ابن صفی

No comments:

Post a Comment