گر وقت کڑی دھوپ ہی بن جائے تو کیا ہو
وہ پھول سا چہرہ بھی جو کمہلائے تو کیا ہو
موج مۓ گل رنگ کی لرزش ہے کہ رفتار
اے بادہ وشو! یوں جو چھلک جائے تو کیا ہو
ڈسنے کو چڑھی آتی ہے ناگن سی شبِ تار
اس بت کی رگِ جاں کے قرِیں بھی تو وہی ہے
واعظ کی سمجھ میں جو یہ آ جائے تو کیا ہو
انگڑائی ہے، یا جام سے ابلی ہوئی صہبا
ایسے میں جو کوئی پی کے بہک جائے تو کیا ہو
توبہ بھی کروں۔۔ اور گھٹائیں بھی نہ اٹھیں
پر زلفِ سِیہ ابر سی لہرائے تو کیا ہو
اے ماہ وشو،۔۔ گل بدنو،۔۔ عشوہ طرازو
تم کو بھی کوئی گر یوں ہی ترسائے تو کیا ہو
اسرار ناروی
ابن صفی
No comments:
Post a Comment