درونِ ذات پرندوں کا شور تب سے اُٹھا
جب ایک شام دِیا حجرۂ طلب سے اٹھا
مکالمے پہ ہی نوواردان حیرت تھے
بِنا کلام کئے خانۂ عجب سے اٹھا
سو کیا بتائیں تمہیں کاذبِینِ ہجر! یہ دل
تُو ارتکاز میں کم ہے، گریز کر مجھ سے
مجھ اسمِ یار کو مت لحنِ مضطرب سے اٹھا
دمِ سلوک تو حیرت میں پڑ گئے تھے چراغ
بحالِ وجد میں جب زینتِ ادب سے اٹھا
تو مجھ فقیر کو دیوان خانۂ غم سے
اٹھانا چاہ رہا ہے تو اسمِ رب سے اٹھا
علی زریون
No comments:
Post a Comment