Friday 14 October 2016

میں نے کہا کہ حسن کو اپنے چھپا کے رکھ

میں نے کہا کہ حسن کو اپنے چھپا کے رکھ
اس نے کہا تُو اپنی نگاہیں جھکا کے رکھ
میں نے کہا کہ دید میسر ہو کس طرح؟
اس نے کہا کہ آئینہ دل میں سجا کے رکھ 
میں نے کہا کہ راہِ محبت ہے اور میں 
اس نے کہا قدم کو قدم سے ملا کے رکھ 
میں نے کہا کہ چاہئے تھوڑا سا التفات
اس نے کہا مزاج نہ بادِ صبا کے رکھ 
میں نے کہا کٹھن ہے بہت زیست کا سفر 
اس نے کہا کہ عشق کو جادہ بنا کے رکھ
میں نے کہا کہ ہجر میں جلتا ہے یہ بدن 
اس نے کہا جلے تو جلے دل بچا کے رکھ
میں نے کہا کہ وصل کا امکان ہے کبھی 
اس نے کہا چراغِ تمنا جلا کے رکھ 
میں نے کہا کہ بجھتا دِیا ہوں، خیال کر 
اس نے کہا کہ سامنے خود کو ہوا کے رکھ 
میں نے کہا کلام میں تاثیر کیوں نہیں 
اس نے کہا کہ درد کو دل میں بسا کے رکھ 
ناصرؔ مکالماتی غزل خوب ہے،۔ مگر
اس طرزِ خاص میں تُو قدم آزما کے رکھ 

ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment