جسے چاہوں اسے اپنا بنا کر چھوڑ دیتا ہوں
حسینوں کو بہت نزدیک لا کر چھوڑ دیتا ہوں
میں اپنے دشمنوں سے بھی عداوت کر نہیں سکتا
خود اپنے قاتلوں کو مسکرا کر چھوڑ دیتا ہوں
جنونِ شوق میں حائل نہ ہوں منطق کی دیواریں
مجھے معلوم ہے رسم و رَہِ الفت کی دشواری
پری چہروں سے میں پینگیں بڑھا کر چھوڑ دیتا ہوں
کسی زلفِ رسا کے پیچ و خم پر جاں فدا میری
کسی جُوڑے میں پھولوں کو سجا کر چھوڑ دیتا ہوں
کوئ شعروں کی فرمائش کرے مجھ سے اگر ناصرؔ
میں اس کو صرف حالِ دل سنا کر چھوڑ دیتا ہوں
ناصر زیدی
No comments:
Post a Comment