Friday 14 October 2016

جسے چاہوں اسے اپنا بنا کر چھوڑ دیتا ہوں

جسے چاہوں اسے اپنا بنا کر چھوڑ دیتا ہوں
حسینوں کو بہت نزدیک لا کر چھوڑ دیتا ہوں
میں اپنے دشمنوں سے بھی عداوت کر نہیں سکتا
خود اپنے قاتلوں کو مسکرا کر چھوڑ دیتا ہوں
جنونِ شوق میں حائل نہ ہوں منطق کی دیواریں
خِرد کی راہ میں کانٹے بچھا کر چھوڑ دیتا ہوں
مجھے معلوم ہے رسم و رَہِ الفت کی دشواری
پری چہروں سے میں پینگیں بڑھا کر چھوڑ دیتا ہوں
کسی زلفِ رسا کے پیچ و خم پر جاں فدا میری
کسی جُوڑے میں پھولوں کو سجا کر چھوڑ دیتا ہوں
کوئ شعروں کی فرمائش کرے مجھ سے اگر ناصرؔ
میں اس کو صرف حالِ دل سنا کر چھوڑ دیتا ہوں

ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment