حجاب اٹھے ہیں لیکن وہ رو برو تو نہیں
شریک عشق کہیں کوئی آرزو تو نہیں
یہ خود فریبئ احساس آرزو تو نہیں
تِری تلاش کہیں اپنی جستجو تو نہیں
سکوت وہ بھی مسلسل سکوت کیا معنی
انہیں بھی کر دیا بیتابِ آرزو کس نے
مِری نگاہِ محبت! کہیں یہ تُو تو نہیں
کہاں ہے عشق کا عالم، کہاں وہ حسنِ تمام
یہ سوچتا ہوں کہ میں اپنے رو برو تو نہیں
نگاہِ شوق سے غافل سمجھ نہ جلووں کو
شراب کچھ بھی ہو بے گانۂ سبو تو نہیں
خوشی سے ترکِ محبت کا عہد لے اے دوست
مگر یہ دیکھ تِرا دل لہو لہو تو نہیں
نہ گردِ راہ ہے رخ پر نہ آنکھ میں آنسو
یہ جستجو بھی سہی اس کی جستجو تو نہیں
چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست
فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں
امید فاضلی
No comments:
Post a Comment