ہم، تِرا عہدِ محبت ٹھہرے
لوحِ نسیاں کی جسارت ٹھہرے
دل لہو کر کے یہ قسمت ٹھہرے
سنگ فن کار کی اُجرت ٹھہرے
مقتلِ جاں کی ضرورت ٹھہرے
کیا قیامت ہے، وہ قاتل مجھ میں
میرے احساس کی صورت ٹھہرے
وقت کے دجلۂ طوفانی میں
آپ ہم موجۂ عجلت ٹھہرے
دوستی یہ ہے کہ خوشبو کیلئے
رنگ زندانیٔ صورت ٹھہرے
تُو ہے خورشید، نہ میں ہوں شبنم
کیا ملاقات کی صورت ٹھہرے
اُف یہ گزرے ہوۓ لمحوں کا ہجوم
در و دیوار قیامت ٹھہرے
کوچہ گردانِ جنوں مثلِ صبا
زلفِ آوارہ کی قسمت ٹھہرے
عشق میں منزلِ آرام بھی تھی
ہم سرِ کوچۂ وحشت ٹھہرے
جب سے امؔید گیا ہے کوئ
لمحے صدیوں کی علامت ٹھہرے
امید فاضلی
No comments:
Post a Comment