Thursday, 13 October 2016

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا
پرچھائیں زندہ رہ گئی، انسان مر گیا
بربادیاں تو میرا مقدر ہی تھیں مگر
چہروں سے دوستی ملمع اتر گیا 
اے دوپہر کی دھوپ! بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایا کدھر گیا؟
اس شہر میں فراش طلب ہے ہر ایک راہ
وہ خوش نصیب تھا جو سلیقے سے مر گیا
کیا کیا نہ اس کو زعمِ مسیحائی تھا امید
ہم نے دکھائے زخم تو چہرہ اتر گیا

امید فاضلی

No comments:

Post a Comment