Thursday 13 October 2016

اے دل خود ناشناس ایسا بھی کیا

اے دلِ خود ناشناس ایسا بھی کیا
آئینہ،۔ اور اس قدر تنہا بھی کیا
اس کو دیکھا بھی، مگر دیکھا بھی کیا 
عرصۂ خواہش میں اک لمحہ بھی کیا
درد کا رشتہ بھی ہے تجھ سے بہت 
اور پھر یہ درد کا رشتہ بھی کیا 
زندگی خود لاکھ زہروں کا تھی زہر 
زہرِ غم! تجھ سے میرا ہوتا بھی کیا
پوچھتا ہے راہرو سے یہ سراب
تشنگی کا نام ہے دریا بھی کیا؟ 
اُف، یہ لُو دیتی ہوئی تنہاہیاں
کھینچتی ہے عقل جب کوئ حصار 
دھوپ کہتی ہے کہ یہ سایہ بھی کیا
شہر میں آباد ہے صحرا بھی کیا؟ 
رقص کرنا ہر نئے جھونکے کے ساتھ 
برگِ آوارہ ہے یہ دنیا بھی کیا
بے تب و تابِ شعاعِ آگاہی
عِشق کہئے جس کو وہ شعلہ بھی کیا
گاہے گاہے پیار کی بھی اِک نظر
ہم سے روٹھے ہی رہو، ایسا بھی کیا
خود اسے درکار تھی میری نظر
خود نما جلوہ مجھے دیتا بھی کیا
اے مِری تخلیقِ فن! تیرے بغیر
میں کہ سب کچھ تھا، مگر میں تھا بھی کیا 
خندہ زن غم پر، خوشی پر اشک بار 
ان دنوں یارو، ہے رنگ اپنا بھی کیا
نغمۂ جاں کو گراں گوشوں کے پاس 
نارسائی کے سوا ملتا بھی کیا

امید فاضلی

No comments:

Post a Comment