احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا
میں شہر جاں کو راکھ بنا دینے آؤں گا
لکھے تھے حرفِ شوق جو میں نے تِرے لیے
اب آنسوؤں سے ان کو مٹا دینے آؤں گا
تُو نے عطا کئے ہیں مجھے کتنے رنج و غم
سمجھا دیا ہے تُو نے محبت ہے اک خطا
میں اس خطا کی خود کو سزا دینے آؤں گا
آیا تیری گلی میں اگر لوٹ کر کبھی
گزرے ہوئے دنوں کو صدا دینے آؤں گا
پایا تھا راہِ شوق میں جو کربِ آ گہی
اس کربِ آ گہی کو سُلا دینے آؤں گا
باہر نکل کے جسم کے زِندان سے اک دن
میں تجھ کو زندگی کی دعا دینے آؤں گا
میں کشتۂ وفا سہی ناصرؔ مگر ضرور
اک بے وفا کو دادِ وفا دینے آؤں گا
ناصر زیدی
No comments:
Post a Comment