Friday 14 October 2016

احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا

احساس کے شرر کو ہوا دینے آؤں گا
میں شہر جاں کو راکھ بنا دینے آؤں گا
لکھے تھے حرفِ شوق جو میں نے تِرے لیے 
اب آنسوؤں سے ان کو مٹا دینے آؤں گا 
تُو نے عطا کئے ہیں مجھے کتنے رنج و غم 
اس لطف خاص کا میں صِلہ دینے آؤں گا 
سمجھا دیا ہے تُو نے محبت ہے اک خطا 
میں اس خطا کی خود کو سزا دینے آؤں گا 
آیا تیری گلی میں اگر لوٹ کر کبھی 
گزرے ہوئے دنوں کو صدا دینے آؤں گا 
پایا تھا راہِ شوق میں جو کربِ آ گہی
اس کربِ آ گہی کو سُلا دینے آؤں گا 
باہر نکل کے جسم کے زِندان سے اک دن 
میں تجھ کو زندگی کی دعا دینے آؤں گا 
میں کشتۂ وفا سہی ناصرؔ مگر ضرور 
اک بے وفا کو دادِ وفا دینے آؤں گا

ناصر زیدی

No comments:

Post a Comment