ظلمتوں کے نرغے میں روشنی کا ہالا ہے
صبح جس کو کہتے ہیں رات کا سنبھالا ہے
کس میں کور چشمی ہے، کون آنکھ والا ہے
اک طرف اندھیرا ہے، اک طرف اجالا ہے
درد جب سِوا ہو جائے، خود ہی ہاتھ رکھ لیجے
جیسے روک دی جائے، کوئی منہدم دیوار
گرتے گرتے یوں خود کو بارہا سنبھالا ہے
ڈر گئے شناور بھی، اور نا شناور بھی
کشتیوں کو موجوں نے جب کبھی اچھالا ہے
عقل و ہوش و دانش کی سرحدوں کو جو چھُو لے
تُو نے ساقیا! ایسا کوئی جام ڈھالا ہے
جیسے ایک چٹکی سے کوئی یک بیک لے لے
دوستوں کی پُرسش کا رنگ ہی نرالا ہے
آئے ہیں نظر ایسے، کچھ سفید چہرے بھی
روح ہے سِیہ جن کی اور دل بھی کالا ہے
کیں تو کرنے والوں نے زندگی کی راہیں بند
ہم نے خود ہی جینے کا راستا نکالا ہے
گھٹ چکی ہے اک حد تک جسم کی توانائی
اس کے باوجود اعجازؔ آج بھی جیالا ہے
اعجاز صدیقی
No comments:
Post a Comment