Monday, 17 October 2016

ظلمتوں کے نرغے میں روشنی کا ہالا ہے

ظلمتوں کے نرغے میں روشنی کا ہالا ہے
صبح جس کو کہتے ہیں رات کا سنبھالا ہے
کس میں کور چشمی ہے، کون آنکھ والا ہے
اک طرف اندھیرا ہے، اک طرف اجالا ہے
درد جب سِوا ہو جائے، خود ہی ہاتھ رکھ لیجے
کون دل کے زخموں پر ہاتھ رکھنے والا ہے
جیسے روک دی جائے، کوئی منہدم دیوار
گرتے گرتے یوں خود کو بارہا سنبھالا ہے
ڈر گئے شناور بھی، اور نا شناور بھی
کشتیوں کو موجوں نے جب کبھی اچھالا ہے
عقل و ہوش و دانش کی سرحدوں کو جو چھُو لے
تُو نے ساقیا! ایسا کوئی جام ڈھالا ہے
جیسے ایک چٹکی سے کوئی یک بیک لے لے
دوستوں کی پُرسش کا رنگ ہی نرالا ہے
آئے ہیں نظر ایسے، کچھ سفید چہرے بھی
روح ہے سِیہ جن کی اور دل بھی کالا ہے
کیں تو کرنے والوں نے زندگی کی راہیں بند
ہم نے خود ہی جینے کا راستا نکالا ہے
گھٹ چکی ہے اک حد تک جسم کی توانائی
اس کے باوجود اعجازؔ آج بھی جیالا ہے

اعجاز صدیقی

No comments:

Post a Comment