ہم صبح میں ڈھالیں گے رخِ شام ہمیں دو
بے نور ہے، آئینۂ ایام ہمیں دو
اشکوں کو تبسم کا چلن ہم نے سکھایا
شائستگئ ضبط کا انعام ہمیں دو
ہم پیار کی خاطر رسن و دار تک آئے
اے راہبرو! دور نہیں منزلِ پُر شوق
دھوکے ابھی کچھ اور بہر گام ہمیں دو
ہر ظرفِ قدح خوار سے ظرف اپنا الگ ہے
افسردہ نہیں،۔ دردِ تہہِ جام ہمیں دو
ہم آبلہ سامانِ جنوں گرمِ سفر ہیں
تھوڑی سی تو دادِ دلِ ناکام ہمیں دو
ہاں فطرتِ اربابِ وفا کوہکنی ہے
اے بے عملو! لاؤ، کوئی کام ہمیں دو
ہم آتشِ نمرود میں بھی کود گئے ہیں
آغاز میں اندیشۂ انجام ہمیں دو
یہ فرشِ گُل و لالہ ہے توہین ہماری
شعلوں پہ کوئی رقص کا پیغام ہمیں دو
تم تو سرِ مۓ خانہ بہکنے لگے یارو
ہم پی کے دکھاتے ہیں ذرا جام ہمیں دو
اعجازؔ جنہیں وقت نے اب تک نہ سجایا
اُجڑے ہوئے دل کے وہ در و بام ہمیں دو
اعجاز صدیقی
No comments:
Post a Comment