Monday, 3 October 2016

دھوپ میں سایہ بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں

دھوپ میں سایہ بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں 
بڑے لوگوں کے خسارے بھی بڑے ہوتے ہیں
ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں 
ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں
یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ
صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں
آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں 
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں
ہجر دیوار کا آزار تو ہے ہی، لیکن
اس کے اوپر بھی کئی کانچ جڑے ہوتے ہیں

اظہر فراغ

No comments:

Post a Comment