میں جانتا ہوں، وہی ہیں پکارنے والے
بلا کے گھر میں چراغوں کو مارنے والے
رضائے یار پہ خواہش کو وارنے والے
عجب سخی ہیں محبت میں ہارنے والے
اب اپنے آپ کو بھی آئینے میں دیکھ ذرا
مِرے وجود میں حیرت اتارنے والے
بس ایک اسم کا سایا بس ایک جسم کی دھوپ
مِرے سفر کی تھکاوٹ اتارنے والے
دھمال رکنے نہ پائے علیؔ قلندر کی
بہت سے نقش ابھی ہیں ابھارنے والے
علی زریون
بلا کے گھر میں چراغوں کو مارنے والے
رضائے یار پہ خواہش کو وارنے والے
عجب سخی ہیں محبت میں ہارنے والے
اب اپنے آپ کو بھی آئینے میں دیکھ ذرا
مِرے وجود میں حیرت اتارنے والے
بس ایک اسم کا سایا بس ایک جسم کی دھوپ
مِرے سفر کی تھکاوٹ اتارنے والے
دھمال رکنے نہ پائے علیؔ قلندر کی
بہت سے نقش ابھی ہیں ابھارنے والے
علی زریون
No comments:
Post a Comment