اٹھنے لگا دھواں دلِ غم انتساب سے
کجلا نہ جائیں ارض و سما آفتاب سے
لفظوں میں گھٹ نہ جائے معانی کا دم کہیں
لَو دے اٹھے نہ حرفِ جنوں احتساب سے
زیرِ زمیں درختوں کی بڑھنے لگیں جڑیں
ہر حجلۂ سکوت میں طوفاں ہے مضطرب
کب تک بندھے رہیں گے یہ خیمے طناب سے
کانوں میں آ رہی ہے کسی صُور کی صدا
دھڑکے ہوئے ہیں دل کسی روزِ حساب سے
ہر شخص اپنی فردِ عمل کو سمیٹ کر
آئینہ دیکھتا ہے بڑے اضطراب سے
جسموں پہ پیرہن کی سجاوٹ ہے دیدنی
لیکن عرق عرق سے ہیں چہرے گلاب سے
بیدار دل میں ہے کوئی بے نام خوف سا
سہمی ہوئی ہے روح سوال و جواب سے
سنتے ہیں بازگشت جب اپنی صداؤں کے
رہ رہ کے جاگ پڑتے ہیں کچھ لوگ خواب سے
تہہ کی خبر تو کیا، انہیں اپنی خبر نہیں
ابھرے ہیں سطحِ آب پر جو سر حباب سے
چہروں پہ جو لکھا ہے وہ الفاظ میں کہاں
اک جھوٹ کا اضافہ ہوا ہے کتاب سے
میرے لہو کی آب میں چہرہ نما بھی ہیں
منظر تِری نگاہ میں ہیں جو سراب سے
ان پر جو فاش ہو گئے شاید فلک کے راز
سُوئے زمین آنے لگے ہیں شہاب سے
حمایت علی شاعر
No comments:
Post a Comment