چشمِ تر سے آنسوؤں نے رواں ہونا ہی تھا
آخر اس چشمے نے اک دن بیکراں ہونا ہی تھا
دو قدم ہی چل کے دھوکا دے گیا ہم سفر
راہِ منزل نے بھی تو پھر بے نشاں ہونا ہی تھا
کر لیا جب خود غرض لوگوں پہ اندھا اعتماد
خود ہی میری خوبیوں کو خامیوں میں ڈھال کر
اس بہانے اس نے مجھ سے بدگماں ہونا ہی تھا
وقت کی مجبوریوں نے جب زباں کھلنے نہ دی
حالِ دل نمناک آنکھوں سے عیاں ہونا ہی تھا
یاس و رنج و غم عطا ہوتے نہ کیوں ارشادؔ کو
اس نے میری بے بسی پر مہرباں ہونا ہی تھا
ارشاد جالندھری
No comments:
Post a Comment