خوشی دے کر جو غم پایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا
وہی اِک زخم پھر کھایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا
میرے مجبور سینے پر تشدد کے نشانوں کو
زمانہ دیکھنے آیا،۔ نتیجہ کچھ نہیں نکلا
مِری قسمت بدلنے کے لیے ہر ایک محفل میں
تِرے رنگین وعدوں اور تِری جھوٹی تسلی پر
بہت اِس دل کو سمجھایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا
یہ ہے ارشادؔ پچھتاوا فقط اِک شخص کی خاطر
زمانے بھر کو ٹھکرایا، نتیجہ کچھ نہیں نکلا
ارشاد جالندھری
No comments:
Post a Comment