Monday 17 October 2016

کچھ بول میر کارواں (مکمل)

کچھ بول میرِ کارواں

جب لٹ رہا ہو گلستاں، جب جل رہے ہوں آشیاں
جب گر رہی ہوں بجلیاں، جب ہو فضاؤں میں دھواں
جب شہر ہوں آتش فشاں، جب راکھ ہو جائیں مکاں
پھر وہ مکیں جائیں کہاں،۔ کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

کیا خوب ہے یہ رہبری، بے رہروی کچھ خود سری
ہر وقت کنبہ پروری، صد حیف ایسی لیڈری
ذہنوں کی یوں سوداگری، اک دوسرے پر برتری
کیوں بِک رہے ہیں پاسباں، کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

ہر شہر میں دیہات میں، کیوں راہزن ہیں گھات میں
جلتے ہوۓ لمحات میں، جھلسے ہوۓ دن رات میں
بارود کی برسات میں، محشر نما حالات میں
ہم ڈھونڈتے ہیں سائباں،۔ کچھ بول میرِ کارواں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

کیوں راحتیں نابود ہیں، کیوں رونقیں مفقود ہیں
کیوں آفتیں موجود ہیں، کیوں لمحے خوں آلود ہیں
کیوں ضابطے محدود ہیں، کیوں کششیں بے سود ہیں
کیا کر رہے ہیں حکمراں،۔ کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

مفلوج جب قانون ہو، کیوں حُرمتِ خاتون ہو
فرعون ہو قارون ہو،۔ آزاد ہر ملعون ہو
انصاف جب مرہون ہو، پھر کیوں نہ ہر سُو خون ہو
ہے ذرّہ ذرّہ خونچکاں،۔ کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

جب زندگی درگور ہو، آدم ہی آدم خور ہو
ظالم کی لمبی ڈور ہو، عیاشیوں کا زور ہو
انصاف کا بھی شور ہو، خود پاسباں جب چور ہو
پھولے پھلے کیوں گلستاں،۔ کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

غفلت کا جو انداز ہے، اس میں بھی کوئی راز ہے
کس ظلم کا آغاز ہے، یہ کِبر ہے یا ناز ہے
فریاد بے آواز ہے، تو کیسا چارہ ساز ہے
کیا ہیں یہی ہمدردیاں،۔ کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

یہ حال ہو جب کُو بکو، ہر سمت بکھرا ہو لہو
پامال ہو جب آرزو، ہوں عصمتیں بے آبرو
محشر بپا ہو چار سُو، جب امن کی ہو جستجو
ارشادؔ کیوں چپ ہو زباں،۔ کچھ بول میرِ کاروں
ہم ہو رہے ہیں بد گماں

سنسان ہر بازار ہے، اور بند کاروبار ہے
بارود کی بھرمار ہے، خطرات کی یلغار ہے
کس سوچ میں سرکار ہے، کیا یہ کوئی تہوار ہے
ہو رہا ہے کیا یہاں، کچھ بول میر کارواں
ہم ہو رہے ہیں بدگماں

جب زندگی درگور ہو، آدم ہی آدم خور ہو
ظالم کی لمبی ڈور ہو، عیاشیوں کا زور ہو
انصاف کا بھی شور ہو، خود پاسباں جب چور ہو
پھولے پھلے کیوں گلستاں، کچھ بول میر کارواں
ہم ہو رہے ہیں بدگماں

ارشاد جالندھری

No comments:

Post a Comment