والعصر زمانہ مِرے مطلب کا نہیں ہے
یہ آئینہ خانہ مِرے مطلب کا نہیں ہے
کہتی ہیں، نہ لا پائیں گی یہ تابِ نطارہ
آنکهوں کا بہانہ، مِرے مطلب کا نہیں ہے
آئی ہوں تِرے واسطےجنت سے زمیں پر
اس میں ہے مِرا ثانوی کردار لکهاری
تیرا یہ فسانہ مِرے مطلب کا نہیں ہے
اک شخص کی خاطر ہے یہ سب ملنا ملانا
ویسے، وہ گهرانا مِرے مطلب کا نہیں ہے
جی خوب لگا وحشتِ بیدارئ شب میں
دن خواب سہانا، مِرے مطلب کا نہیں ہے
جب مجھ سے تِرے بارے میں پوچھے گا زمانہ
کہہ دوں گی، دِوانہ مِرے مطلب کا نہیں ہے
احساس کا نیلم جو نہیں تیرے بیاں میں
لفظوں کا خزانہ مِرے مطلب کا نہیں ہے
نیلم ملک
No comments:
Post a Comment