Monday 27 July 2020

مجھ کو جو میسر تھا سنگ لے گیا ہے تو

مجھ کو جو میسر تھا سنگ لے گیا ہے تُو
یعنی میرے جیون سے، رنگ لے گیا ہے تو
کیسے گنگنائے گی، گیت کیسے گائے گی
چہچہاتی چڑیا کا "چنگ" لے گیا ہے تو
کس کے نام کی مہندی، کیسی کانچ کی چوڑی
میرے سج سنورنے کا، ڈھنگ لے گیا ہے تو
روز تجھ سے لڑتی تھی، روز جیت جاتی تھی
خود سے جیتنے والی، جنگ لے گیا ہے تو
برف رنگ سے ڈھک کر، منظروں کی عُریانی 
اس غریب وادی کا "ننگ" لے گیا ہے تو
آئینے میں دیکھا تو، صرف میں نظر آئی
مجھ کو لگ گیا تھا جو، زنگ لے گیا ہے تو
ہاتھ رکھ کے سینے پر چیخنے لگا ہے جسم
جو بہت ضروی تھا، "انگ" لے گیا ہے تو
رنگ رنگ موسم سب جس کو دیکھ کھلتے تھے 
اس کی شوخ آنکھوں سے شنگ لے گیا ہے تو
حبس، خوف، خدشے، ڈر، گرد اور دھواں انجیل
جن سے سانس ہوتی تھی تنگ لے گیا ہے تو

انجیل صحیفہ

No comments:

Post a Comment