Monday 27 July 2020

تیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں

تیرے خاموش تکلم کا سہارا ہو جاؤں
تیرا انداز بدل دوں تِرا لہجہ ہو جاؤں
تو مِرے لمس کی تاثیر سے واقف ہی نہیں
تجھ کو چھو لوں تو تِرے جسم کا حصہ ہو جاؤں
تیرے ہونٹوں کے لیے ہونٹ میرے آبِ حیات
اور کوئی جو چھوئے زہر کا پیالہ ہو جاؤں
کر دیا تیرے تغافل نے ادھورا مجھ کو
ایک ہچکی اگر آ جائے تو پورا ہو جاؤں
دل یہ کرتا ہے کہ اس عمر کی پگڈنڈی پر
الٹے پیروں سے چلوں پھر وہی لڑکا ہو جاؤں
اس قدر چیختی رہتی ہے خاموشی مجھ میں
شور کانوں میں اتر جائے تو بہرا ہو جاؤں
تیرے چڑھتے ہوئے دریا کو پشیماں کر دوں
تجھ کو پانے کے لیے ریت کا صحرا ہو جاؤں
آپ ہستی کو تِرے شوق پہ قربان کروں
تُو اگر توڑ کے خوش ہو تو کھلونا ہو جاؤں

محشر آفریدی

No comments:

Post a Comment