نشے کی آگ میں دیکھا گلاب، یعنی تُو
بدن کے جام میں دیسی شراب، یعنی تو
ہمارے لمس نے سب تار کس دئیے اس کے
وہ جھنجھنانے کو بے کل رباب، یعنی تو
ہر ایک چہرہ نظر سے چکھا ہوا دیکھا
سفید قلمیں ہوئیں تو سیاہ زلف ملی
اب ایسی عمر میں یہ انقلاب، یعنی تو
میں خود ہی اپنی نگاہوں کی داد دیتا ہوں
ہزار چہروں میں اک انتخاب، یعنی تو
ملے نہ ملے نیکیوں کا پھل مجھ کو
خدا نے دے دیا مجھ کو ثواب، یعنی تو
گداز جسم، کمل ہونٹ، مرمری بانہیں
مِری طبیعت پہ لکھی کتاب، یعنی تو
میں تیرے عشق سے پہلے گناہ کرتا تھا
مجھے دیا گیا دل کش عذاب، یعنی تو
محشر آفریدی
No comments:
Post a Comment