جنگ جو خود سے ہاری گئی
نجانے اپنی خوئے باوفا کا زعم تھا مجھے
یا ناز تھا؟
کہ سخت موسموں میں بھی تِرے ہی دھیان کی کلی کھلا رکھی
وہ اشکِ خوں جو میری آنکھ سے بہا
وہ درد جن کے سوز سے مِری غزل دمک اٹھی
وہ خواب جن کے جسم پر جگہ جگہ نئے سرے سے جوڑنے کے ان گنت نشان تھے
وہ شبنمی سی نرم گفتگو کے گُل، جو مر گئے
ہنسی میں کتنی تشنہ خواہشوں کے رنگ بھر گئے
وہ انگلیاں جو تیری آنکھ میں لرزتے آنسوؤں کو پونچھنے کی آرزو میں شل ہوئیں
(کہ ان کو بخت نے یہ حق دیا نہ تھا)
یہ سب مِری کمائی ہی نہ تھی، یہ میرا مان تھا
نباہنے کا وصف میری خاک میں گندھا ہوا تھا روزِ اولیں سے
اور یہ مان میری عمر کا حصول تھا
مگر وہ ایک پل
جب اپنی پور پور
اس زمین کی تمام جھیلوں، ساری آبشاروں، ہر ندی کی بوند بوند میں بھگو کے
ہار کر
ہر ایک جھوٹے عشق کے سبھی نقاب اتار کر
تُو اپنی زخم زخم روح اپنے بازوؤں پہ ڈال میرے دوار آ کھڑا ہوا تھا
ایک حرفِ اِندمال کی طلب لیے
(وہ پل جو بس تِرے مِرے لیے سمے کی کوکھ میں پلا تھا)
جو ہمارے آسمانی ربط کا زمینی روپ تھا
اس ایک پل میں اپنا رنج، اپنے گھاؤ، اپنی قدر ناشناسی بھول کر
مِرے دلِ تباہ نے تِرا ملال بڑھ کے گود لے لیا
سو میرے لفظ تیری چاک روح کی دوا بنے
مِری دعا نے تیرے ڈر تھپک تھپک سلا دئیے
مِری وفا کی گود میں
تِرا فگار دل بھی اپنے چھید بھولنے لگا
جب اپنے خوف بھول کر تُو پھر سے مسکرا اٹھا
یہ کیا ہوا؟
کہ میرے درد پھر سے بلبلا اٹھے
تمام حسرتوں کے نیم جان جسم کلبلا اٹھے
شفا چھڑکتا حرف حرف ایک تشنہ کام آرزو سے زہر ہو گیا
یہ کیا ہوا؟
مِری وفا کا زعم تیرا کُل سکون کھا گیا
مِرے غرورِ پارسائی کا خمار عشق کو ہرا گیا
سیماب ظفر
No comments:
Post a Comment