ہم کبھی آگ تھے جو بجھ کے ہوۓ راکھ کی مانند
وقت کے آگے پڑے ہیں خس و خاشاک کی مانند
خلعتِ فقر کا طالب ہوں،۔ مگر خواہشِ دنیا
چِپکی رہتی ہے بدن سے مِری پوشاک کی مانند
اب بھلا کون تراشے گا مِرے بگڑے ہوۓ نقش؟
سر "کچلنے" کے علاوہ کوئی رَستہ ہی نہیں تھا
وہ لڑا مجھ سے کسی "مارِ" خطرناک کی مانند
اپنے اندر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہم کو
دیکھتے ہیں جہاں کو دیدۂ ادراک کی مانند
میں کسی "اور" ہی دنیا میں چلا آیا ہوں احمد
یہ جہاں لگتا نہیں مجھ کو مِری خاک کی مانند
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment