Monday 27 July 2020

خیر و شر میں کشمکش جو باہمی ہے میرے اندر

خیر و شر میں کشمکش جو باہمی ہے میرے اندر
ایسے لگتا ہے کہ جیسے آدمی ہے میرے اندر
کون ہے جو وسوسوں کی آگ دہکاتا ہے دل میں
ہاں "یقیناً" وہ پرانا "دوزخی" ہے میرے اندر
جب بھی چمکا تیرا چہرہ میری یادوں کے افق پر
میں نے دیکھا روشنی ہی روشنی ہے میرے اندر
اضطرابی کیفیت کا اک سبب تو بھی ہے شاید
اک ترا حصہ کہیں پر "لازمی" ہے میرے اندر
میں "وفاؤں" کے صلے میں توڑ دیتا ہوں تعلق
میرے مولا! کس طرح کی بے رخی ہے میرے اندر
اے خدا! تیرے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس جہاں میں
میری کوتاہی پہ مت جا، "کاہلی" ہے میرے اندر

احمد ساقی

No comments:

Post a Comment