Monday 27 July 2020

دروازے کو دستک زندہ رکھتی ہے

دروازے" کو "دستک" زندہ رکھتی ہے"
جیسے دل کو دھک دھک زندہ رکھتی ہے
آ جاتے ہیں شام ڈھلے کچھ دوست یہاں
ہم ایسوں کو "بیٹھک" زندہ رکھتی ہے
"منظر" کو زندہ رکھتی ہے "بینائی"
بینائی" کو "عینک" زندہ رکھتی ہے"
جیسے ہی چپ ہوتے ہیں، مر جاتے ہیں
کچھ لوگوں کو بک بک زندہ رکھتی ہے
اک مہندی میں جاکر یہ احوال کُھلا
کچھ گیتوں کو ڈھولک زندہ رکھتی ہے
زندہ ہیں اِس شور میں ہم خاموشی سے
خاموشی اب جب تک زندہ رکھتی ہے

کاشف حسین غائر

No comments:

Post a Comment