کیا بچاؤں تجھے کیا لٹاؤں تجھے، مختصر زندگی
خود پہ اوڑھوں کہ نیچے بچھاؤں تجھے مختصر زندگی
ذرہ ذرہ بکھر کر بھی آخر تجھے ختم ہونا تو ہے
کیوں نہ یکدم ہوا میں اڑاؤں تجھے مختصر زندگی
تیری کھیتی پہ اپنا گزارا نہیں، بھوک مِٹتی نہیں
کھینچنے کا جو وعدہ کرے سانس کو وصل کے پل تلک
قصۂ طولِ ہجراں سناؤں تجھے مختصر زندگی
تجھ سے اگلی طرف موت کی وسعتِ بیکراں موجزن
تُو ہے دیوار سی، چل گراؤں تجھے مختصر زندگی
چار دن کی ہے مہماں مِرے پاس تُو، مجھ سے روٹھا نہ کر
ناز تیرے اٹھاؤں، مناؤں تجھے مختصر زندگی
عین ممکن ہے تُو پھیل جائے یونہی وسعتِ جسم میں
روگ کی طرح دل سے لگاؤں تجھے مختصر زندگی
نیلم ملک
No comments:
Post a Comment