شاعری نہیں کرنی
جب تلک سلامت ہوں، شاعری نہیں کرنی
ناخنوں کے نیزوں سے زخم تازہ رکھنے ہیں
شاعری نہیں کرنی
رہبروں کی منڈی میں کوڑیوں کے بھاؤ پر
کون کتنا بِکتا ہے؟ بس حساب رکھنا ہے
خواب تو اترتے ہیں ڈٹ کے سونے والوں پر
جاگنے کا ٹھیکہ ہے جاگتے ہی رہنا ہے
شاعری نہیں کرنی
شاعری بھی آتی ہے قافیے بھی کافی ہیں
ننھی مُنی بحروں میں وصل کے ترانوں کو
ہجر کے عذابوں کو درد کے غلافوں میں
پیش کر کے دنیا سے داد دونوں ہاتھوں سے
میں سمیٹ سکتا ہوں
بھیگتے دسمبر میں بے مثال پریوں کی
کروٹوں کے نقشوں کو نرم گرم لفظوں کی
آنچ پر پکانا تو شاعروں کا پیشہ ہے
میرا اپنا دھندہ ہے
شاعری نہیں ہوتی
میں لہو پسینے کو خاک پر بہاتا ہوں
پھر میں دونوں ہاتھوں سے گوندھتا ہوں مٹی کو
ہڈیوں کے گُودے میں جب تھکن اترتی ہے
چار پیڑے آٹے کے میں گھسیٹ لاتا ہوں
شاعری نہیں کرتا
شاعری کے مندر میں پُوجا پاٹ چلتی ہے
سب کو شاد رکھنے کے گُر مجھے نہیں آتے
میں نے تو یہ دیکھا ہے چاند کی محبت میں
جو چکور جاتا ہے آسماں کے نرغے میں
آسماں پٹختا ہے، بے وقوف پنچھی کو
چاند کتنی صدیوں سے آج بھی اکیلا ہے
میرا نام عابی ہے، میں زمیں کا باسی ہوں
اور زمیں پہ رہتا ہوں
ناخنوں کے نیزوں سے
زخم تازہ رکھتا ہوں
شاعری نہیں کرتا
شاعری نہیں کرتا
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment