Sunday, 26 July 2020

یہ عجیب لذت درد تھی کہ جو آ کے دل میں سما گئی

یہ عجیب لذتِ درد تھی کہ جو آ کے دل میں سما گئی
ترے آنسوؤں کو سمیٹ کر میں تو جگنوؤں میں نہا گئی
مِری پور پور میں بھر گئیں یہ عجیب نرم سی بجلیاں
تِرے اشک درد کی کہکشاں مِرے ہاتھ پھر سے جلا گئی
مجھے آج تک نہیں بھولتے، تری چاہتوں کے وہ ذائقے
کہ جو تُو ملا تو لگا مجھے سرِ عرش میری دعا گئی
کوئی مہربان سی یاد تھی، دبے پاؤں آ کے پلٹ گئی
مگر اپنے مہکے وجود سے نئے پھول مجھ میں کھلا گئی
کوئی دشت دشت وجود تھا، مگر ابر بن کے برس گیا
کہیں سبز پیڑ کی چھاؤں بھی مِری تشنگی کو بڑھا گئی
میں حقیر تھی، میں فقیر تھی، میں سدا غموں کی اسیر تھی
جو تیرے کرم کی ضیاء ملی تو چراغ مجھ میں جلا گئی
مِرے ہاتھ پر ابھی نقش ہیں تِری انگلیوں کے نشان تک
تُو نے جب چھوا تو لگا مجھے کوئی آگ مجھ میں سما گئی
وہ جو روشنی کی لکیر سی میرے ہر سفر میں شریک تھی
میری ماں کے لب کی دعا تھی وہ مجھے حادثوں سے بچا گئی
تِرا آندھیوں سا مزاج تھا، تُو بضد تھا مجھ کو بجھائے گا
میں چراغ تھی مِری روشنی تِرے بام و در کو سجا گئی
یہ ایمان میرا خلوص تھا یا کسی کے درد کا معجزہ؟
اسے تیرگی سے نکال کر میں فرازِ طور تک آ گئی

ایمان قیصرانی

No comments:

Post a Comment