Sunday, 26 July 2020

بھول کر تو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر

بھول کر تُو سارے غم اپنے چمن میں رقص کر
جاگ اے درویش جاں میرے بدن میں رقص کر
ڈال' کر 'چادر' وفا کی تُو 'مزارِ' عشق پر'
دارِ منصوری پہ آ، اس پیرہن میں رقص کر
تُو گریباں چاک جو نکلا ہے غم کی بھیڑ میں
جا چلا جا چھوڑ سب تُو اسکے من میں رقص کر
بارگاہِ حسن میں جھک کر سلامی پیش کر
باندھ کر گھنگرو گُلوں کے بانکپن میں رقص کر
کس لیے جلنے نہیں دیتی چراغوں کو مِرے
اے ہوا تُو جا کہیں کوہ و دمن میں رقص کر
یہ رموز معرفت تجھ پر عیاں ہوں گے تبھی
پی طریقت کا سبو اور اس اگن میں رقص کر

آصف انجم

No comments:

Post a Comment