پھول بکھریں گے، پرندوں سے شجر جائے گا
رائیگاں دشت میں بارش کا ہنر جائے گا
اور کیا ہو گا بھلا روٹھ کے جانے والے
بس یہ کاجل مِرے تکیے پہ بکھر جائے گا
رائیگانی میری آنکھوں میں لکھے گی نوحے
کل اسے دیکھ لیا شہر میں ہنستا بستا
وہ تو کہتا تھا کہ بچھڑے گا تو مر جائے گا
دل وہ غیور کہ گر بھیک سمجھ کر دو گے
تو یہ چاہت یونہی دہلیز پہ دھر جائے گا
جس نے تاوان میں آنکھوں کے خسارے جھیلے
وہ اگر خواب بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا
یہ الگ بات کہ وہ بھی نئی وحشت دے گا
بانجھ موسم میں کوئی رنگ تو بھر جائے گا
آنکھ سلگی ہے تو پھوٹے ہیں ہزاروں جھرنے
دل جو سلگا تو دھواں جانے کدھر جائے گا
دے کے کچھ روز میں دنیا کو دھڑکتی یادیں
جیسے ہر سال گزرتا ہے، گزر جائے گا
دل تری یاد کے موسم سے گزرتا ہی نہیں
ہاں مگر تُو تو کسی طور گزر جائے گا
بس اسی خواب کے پہلو میں کھڑی ہوں اب تک
تُو مجھے لے کے کبھی چاند نگر جائے گا
دل کو احساس ہی کب تھا کہ میرے اشکوں کا
میں جو تڑپوں گی تو اس پار اثر جائے گا
صبح کا بھُولا ہے ایمان یقیناً اک دن
وہ کبھی شام ڈھلے لوٹ کے گھر جائے گا
ایمان قیصرانی
No comments:
Post a Comment