وقتِ رخصت وہ بڑے پیار سے مِل کر رویا
چارہ گر اپنے ہی "بیمار" سے مل کر رویا
اس نے پُرکھوں کا مکاں بیچ تو ڈالا، لیکن
دیر تک پھر در و دیوار سے مل کر رویا
جب کسی شخص نے مڑ کر اسے دیکھا بھی نہیں
اس نئے دور کی "تہذیب" کے آئینے میں
آدمی اپنے ہی "کردار" سے مل کر رویا
لوگ پھولوں سے لپٹتے رہے تسکیں کے لیے
ایک میں تھا کہ ہر اک خار سے مل کر رویا
اجنبی "شہر" میں جب کوئی شناسا نہ ملا
دل کو رونا تھا، سو اغیار سے مل کر رویا
میری آنکھوں میں وہ منظر ابھی تازہ ہے نفس
جب تُو ہنستے ہوئے غمخوار سے مل کر رویا
نفس انبالوی
No comments:
Post a Comment