Sunday 26 July 2020

عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا

عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا
زندگی میں تو ترے ناز اٹھانے سے رہا
جب بھی دیکھا تو کناروں پہ تڑپتا دیکھا
یہ سمندر تو مِری پیاس بجھانے سے رہا
بس یہی سوچ کے سر اپنا 'قلم' کر ڈالا
اب وہ الزام مِرے سر تو لگانے سے رہا
اس زمانے میں جہالت سے گزر ہوتی ہے
اب ہنر سے تو کوئی گھر کو چلانے سے رہا
ہم ہی ترکیب کریں کوئی اجالوں کے لیے
اب اندھیرا تو چراغوں کو جلانے سے رہا
وقت کے مرمریں پتھر پہ غزل لکھتا ہوں
یہ عبارت کوئی موسم تو مٹانے سے رہا
بے تعلق تو نہیں عمر گزاری ہے نفس
رشتۂ غیر سہی کچھ تو 'زمانے' سے رہا

نفس انبالوی

No comments:

Post a Comment