عمر بھر درد کے رشتوں کو نبھانے سے رہا
زندگی میں تو ترے ناز اٹھانے سے رہا
جب بھی دیکھا تو کناروں پہ تڑپتا دیکھا
یہ سمندر تو مِری پیاس بجھانے سے رہا
بس یہی سوچ کے سر اپنا 'قلم' کر ڈالا
اس زمانے میں جہالت سے گزر ہوتی ہے
اب ہنر سے تو کوئی گھر کو چلانے سے رہا
ہم ہی ترکیب کریں کوئی اجالوں کے لیے
اب اندھیرا تو چراغوں کو جلانے سے رہا
وقت کے مرمریں پتھر پہ غزل لکھتا ہوں
یہ عبارت کوئی موسم تو مٹانے سے رہا
بے تعلق تو نہیں عمر گزاری ہے نفس
رشتۂ غیر سہی کچھ تو 'زمانے' سے رہا
نفس انبالوی
No comments:
Post a Comment