Saturday 25 July 2020

انتظار کے آنگن میں ایک تابوت

انتظار کے آنگن میں ایک تابوت

مِرے بابا
تمہیں معلوم ہی ہو گا
گھروں سے دور جو شامیں گزرتی ہیں
وہ کتنی زرد ہوتی ہیں
کہ تم نے ایسی شاموں کے کئی چہرے
خطوں میں ڈال کر ہم کو بھی بھیجے تھے
تمہیں معلوم ہے بابا
کہ ہم روتے ہوئے تیرے خطوں کو چوم لیتے تھے
تو تب ہم سے ہماری ماں یہ کہتی تھی
کہ اے بچو
بڑے نادان ہو تم بھی
جو اپنے باپ کے ہاتھوں
لکھے لفظوں پہ روتے ہو
ہماری ماں ہمیں کہتی کہ اے بیٹا
یہ لمحہ شکر کرنے اور دعائیں مانگنے کا ہے
کہ بچوں کی دعائیں
خدا کے ہاں بڑی مقبول ہوتی ہیں
تو تب مُنی کے ہونٹوں پر
تمہارے واسطے حرفِ دعا آتا
تو ہم کہتے
کہ اب بابا کی ساری زرد شاموں کو
نکھرتی روشنی ملنے ہی والی
سنو بابا! وہ سارے راستے جن سے
تمہیں اس روشنی کے ساتھ آنا تھا
تمہارے منتظر بچوں نے
ان میں اپنی آنکھوں کو بچھایا تھا
مگر تم اور ہی رستوں سے آئے ہو
یہ رستے تو کسی نازک گھڑی میں بھی
ہمارے وہم کو چھو کر نہیں گزرے
مرے بابا
اگر تم بعد مدت کے
ہمارے درمیاں آ ہی گئے ہو تو
یہ کیسی آنکھ لائے ہو
کہ جو بچوں کے چہرے بھی نہیں پڑھتی
یہ کیسے ہونٹ لائے ہو
جو ہم کو پھولنے پھلنے کی
اور لمبی حیاتی کی دعائیں تک نہیں دیتے
یہ کیسے ہاتھ لائے ہو
جو ہم کو تھام لینے کے لیے آگے نہیں بڑھتے
سنو بابا
سنہری شام ہوتے ہی
مسافت سے تھکی کونجیں
گھروں کو لوٹ کر آتیں
تو وہ لمحہ بڑا مانوس لگتا تھا
ہمیں محسوس ہوتا تھا
کوئی پیغام آیا ہے
سنو بابا! ہمارے منتظر گھر میں
سمندر پار دیسوں سے
کوئی جھونکا بھی آتا تھا
تو ہم کہتے تھے، ابو آ گئے ہیں
اور عجب حیرت کے عالم میں
ہم اپنے گھر کے دروازے
بنا دستک ہوئے ہی کھول دیتے تھے

مقصود وفا

No comments:

Post a Comment