Saturday, 25 July 2020

جاگتا رہتا ہوں اور کھڑکی کھلی رہتی ہے

جاگتا رہتا ہوں اور کھڑکی کھلی رہتی ہے
کیا خوشی ہے کہ مصیبت ہی پڑی رہتی ہے
اتنی دیواریں گرا کر بھی یہی دیکھا ہے
ایک دیوار مِری رہ میں کھڑی رہتی ہے
باغ میں بکھرے ہوئے رنگ بہت ظالم ہیں
بعض گوشوں میں تو ویرانی پڑی رہتی ہے
ہجر میں وصل کے پھل پھول کھِلے رہتے ہیں
شاخ بچھڑے ہوئے موسم سے بھری رہتی ہے
ایک "ویرانہ" ہے جو شہر کو "کھا" جاتا ہے
ایک "بستی" ہے جو جنگل میں بسی رہتی ہے
اب وہ خوش چہرہ سی خاتون کہاں پر ہو گی
فکر" سی کوئی مِرے "جی" کو لگی رہتی ہے"
حد سے بڑھتی ہوئی وحشت بھی عجب شے ہے وفا
میرے چہرے پہ کسی "غم" کی ہنسی رہتی ہے
موسمِ "گِریہ" گزر جاتا ہے، مقصود وفا
میری دیوار یہ "بارش" کی نمی رہتی ہے

مقصود وفا

No comments:

Post a Comment