دیوار و در کی یاد سے، زینوں کے دھیان سے
جا کر بھی کوئی جاتا نہیں ہے مکان سے
یہ کائنات اب کہیں سر پر نہ آ گرے
بوسیدگی" ٹپکنے لگی "آسمان" سے"
جاتی نہیں ہے دل میں اداسی بسی ہوئی
اس کی قبا بناؤں کہ پرچم بناؤں میں؟
اک پارچہ لیا ہے محبت کے تھان سے
یہ "بد نصیب" دور، "ترقی" کے نام پر
پتھر نکال لایا ہے سونے کی کان سے
ہر بت میں اک دراڑ ہے خود دیکھ لیجیۓ
کوئی یقین پختہ نہیں ہے "گمان" سے
دریا کے ساتھ میں بھی روانی میں آ گیا
رِِستی رہی "ہوائیں" مِرے "بادبان" سے
پہلے میں "انہماک" سے سنتا رہا اسے
پھر میں نے اس کو چوم لیا اطمینان سے
ہم سو گئے تھے اوڑھ کے اک دوسرے کو اور
دیکھا کئے "ستارے" ہمیں "آسمان" سے
مقصود وفا
No comments:
Post a Comment