یہ آنکھوں آنکھوں سے جو ادائے خطاب ہے
اے نازنیں! یہ "طرزِ سخن" لا جواب ہے
دنیا کے سب علوم ہیں جس میں رچے ہوئے
وہ "مکتبِ" شباب کی پہلی "کتاب" ہے
محشر بپا ہے، آگ ہے ہر سو لگی ہوئی
آئے نہ خواب میں بھی کبھی میکدے کے وہ
تیری اداس آنکھوں میں جتنی شراب ہے
رسوائیِ شباب بھی رہتی ہے چپ کبھی
سارے بدن میں بجتا ہوا اک رُباب ہے
کاٹی ہے اک شب جو عدم دلربا کے ساتھ
وہ رات عمرِ خضر کا "لبِ لباب" ہے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment