دل تھا کہ پھول بن کے بِکھرتا چلا گیا
تصویر" کا "جمال" ابھرتا چلا گیا"
شام آئی اور آئی کچھ اس اہتمام سے
وہ "گیسوئے دراز" بِکھرتا چلا گیا
غم کی لکیر تھی کہ خوشی کا اداس رنگ
ہر چند راستے میں تھے کانٹے بچھے ہوئے
جس کو تیری طلب تھی، گزرتا چلا گیا
جب تک تِری نگاہ نے توفِیق دی مجھے
میں تیری زلف بن کے سنورتا چلا گیا
دو ہی تو کام تھے دلِ ناداں کو اے عدم
جیتا" چلا گیا، کبھی "مرتا" چلا گیا"
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment