Saturday, 25 July 2020

غم خانہ ہستی میں ہیں مہماں کوئی دن اور

غم خانۂ ہستی میں ہیں مہماں کوئی دن اور
کر لے ہمیں تقدیر پریشاں کوئی دن اور
مر جائیں گے جب ہم تو بہت یاد کرے گی
جی بھر کے ستا لے شبِ ہجراں کوئی دن اور
تُربت وہ جگہ ہے کہ جہاں غم ہے نہ حیرت
حیرت کدۂ غم میں ہیں حیراں کوئی دن اور
یاروں سے گِلہ ہے نہ عزیزوں سے شکایت
تقدیر میں ہے حسرت و حرماں کوئی دن اور
پامالِ خزاں ہونے کو ہیں مست بہاریں
ہے سیرِ گل و حسنِ گلستاں کوئی دن اور
ہم سا نہ ملے گا کوئی غم دوست جہاں میں
تڑپا لے غمِ گردشِ دوراں کوئی دن اور
قبروں کی جو راتیں ہیں وہ قبروں میں کٹیں گی
آباد ہیں یہ زندہ شبستاں کوئی دن اور
رنگینی و نزہت پہ نہ مغرور ہو بلبل
ہے رنگِ بہارِ چمنستاں کوئی دن اور
آخر کو وہی ہم، وہی ظلماتِ شبِ غم
ہے نور رخِ ماہِ درخشاں کوئی دن اور
آزاد ہوں عالم سے تو آزاد ہوں غم سے
دنیا ہے ہمارے لیے زنداں کوئی دن اور
ہستی کبھی قدرت کا اک احسان تھی ہم پر
اب ہم پہ ہے قدرت کا یہ احساں کوئی دن اور
لعنت تھی گناہوں کی نِدامت مِرے حق میں
ہے شکر کے اس سے ہوں پریشاں کوئی دن اور
شیون کو کوئی خلد بریں میں یہ خبر دے
دنیا میں اب اختر بھی ہے مہماں کوئی دن اور

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment