جب وہ ہاتھ ہوا میں لہرا کر دیتی ہے
اس کی رِدا آنکھوں پر پہرا کر دیتی ہے
میں جب ایک سراب میں جل تھل ہو جاتا ہوں
مجھ کو اگلی خواہش صحرا کر دیتی ہے
بارش جب رچ بس جاتی ہے میرے اندر
کانوں میں بس چیخیں باقی رہ جاتی ہیں
خاموشی کچھ ایسے بہرا کر دیتی ہے
پھر میں شام شفق آنکھوں میں ٹپکاتا ہوں
پھر وہ اپنا رنگ دوپہرا کر دیتی ہے
جب میری تشویش بلندی پر ہوتی ہے
وہ مسکان کو اور بھی گہرا کر دیتی ہے
وقت ہمارے ربط سے واقف کب ہے اسود
دید مجھے وہ "لمحے" ٹھہرا کر دیتی ہے
بلال اسود
No comments:
Post a Comment