تُو جسے چھو کے گزر جائے امر ہو جائے
قریۂ دل کے مسافر کو "خبر" ہو جائے
یوں سرِ بام ہی ٹوٹے گا ستاروں کا فسوں
میری پلکوں کا جو تارا ہے قمر ہو جائے
اک سفر ہے کہ جو درپیش رہا ہے دل کو
منتظر ہیں کہ بہار آئے تو "احوال" کہیں
بات جو دل میں چھپی ہے وہ خبر ہو جائے
کاش اک معجزہ ہو "شام" سے پہلے پہلے
اور پھر چاند کا جھیلوں سے گزر ہو جائے
رات خاموش ہے گزرے ہوئے منظر کی طرح
استعارہ ہے خموشی کا "سحر" ہو جائے
دل ہے شیشہ کہ تِری بات ہے ہیرے کی انی
تیری ہر بات کا اس دل پہ "اثر" ہو جائے
ڈھونڈ کے لائیں کہاں شہر میں سکھ کا سایہ
اس کڑی دھوپ میں تو میرا شجر ہو جائے
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment