Monday, 27 July 2020

سوچ کے بعد

سوچ کے بعد

‏Afterthought 

جو عہدِ رفتہ بھلا رہی ہوں
وہ میں نہیں ہوں
جو خواب رُت کو سجا رہے ہو
وہ تم نہیں ہو
چلی ہے جو مخالفت میں اپنی
یہ وہ ہوا ہے
جو جنگلوں کو جلا رہی ہے
جو آتشیں رنگ ڈھا رہی ہے
مسافرت میں 
جو تم کو مجھ سے ملا رہی ہے
جو قرض سارے چکا رہی ہے
یہ زندگی ہے یا موت؟
کچھ بھی خبر نہیں ہے
مگر جو دامن بچا رہی ہوں
وہ میں نہیں ہوں
جو رات آنے سے قبل ہی ایک دھندلکا ہے
یہ جھٹپٹے میں عکس تیرا ہے یا مِرا ہے؟
جو مجھ کو آواز دے رہا ہے
سراب جیسا جو ایک منظر بنا رہا ہے
وہ تم نہیں ہو
وہ میں نہیں ہوں

شائستہ مفتی

No comments:

Post a Comment