Monday, 27 July 2020

جھیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھینچتی ہے

جھیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھینچتی ہے
یہ تیرے خواب تلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
گر تُو دِکھ جاۓ تو مُڑ مُڑ کے تجھے دیکھتا ہوں
تیری اک اور جھلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
دوڑ پڑتا ہوں میں ہر بار سرابوں کی طرف
یہ تمنا کی دھنک کیسے مجھے کھینچتی ہے
پاک رخسار نے چکھا نہ کبھی غم کا نمک
تیری نم ہوتی پلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
میں سرِ شام ہی اس سمت نکل جاتا ہوں
ایک سنسان سڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے
میرا دل چاہتا ہے، جا کے بکھر جاؤں وہاں
تیرگی سمتِ فلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
کس قدر کھینچتا ہوں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
پھروہ رشتےکی لچک کیسے مجھے کھینچتی ہے
موت کے ہاتھ میں ہیں میری طنابیں اسود
دل یہ جاتا ہے دھڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے

بلال اسود

No comments:

Post a Comment