جھیل آنکھوں کی چمک کیسے مجھے کھینچتی ہے
یہ تیرے خواب تلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
گر تُو دِکھ جاۓ تو مُڑ مُڑ کے تجھے دیکھتا ہوں
تیری اک اور جھلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
دوڑ پڑتا ہوں میں ہر بار سرابوں کی طرف
پاک رخسار نے چکھا نہ کبھی غم کا نمک
تیری نم ہوتی پلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
میں سرِ شام ہی اس سمت نکل جاتا ہوں
ایک سنسان سڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے
میرا دل چاہتا ہے، جا کے بکھر جاؤں وہاں
تیرگی سمتِ فلک کیسے مجھے کھینچتی ہے
کس قدر کھینچتا ہوں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
پھروہ رشتےکی لچک کیسے مجھے کھینچتی ہے
موت کے ہاتھ میں ہیں میری طنابیں اسود
دل یہ جاتا ہے دھڑک کیسے مجھے کھینچتی ہے
بلال اسود
No comments:
Post a Comment