Monday, 27 July 2020

برف کے جسم لیے آگ جلاتے ہوئے لوگ

دھند میں لپٹے ہوئے، دور سے آتے ہوئے لوگ
برف کے جسم لیے آگ جلاتے ہوئے لوگ
نقص تھا میری سماعت میں یا تنہائی کا خوف؟
کتنے خاموش لگے شور مچاتے ہوئے لوگ
ڈوبنے والے کی آنکھوں سے عیاں تھا منظر
تھے کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے ہوئے لوگ
ایک دنیا ہے مِرے جسم کے اندر موجود
جس میں آباد، مجھے کاٹ کے کھاتے ہوئے لوگ
ہانک کر دشت بھی لے آئے مرے گھر کے پاس
میری دیوار سے جنگل کو ملاتے ہوئے لوگ
دھوپ کے ساتھ لڑے، سائے کی تلواریں لیے
موم کے گھر کو پگھلنے سے بچاتے ہوئے لوگ
اب بھی پیپل کی گھنی چھاؤں بلاتی ہے انہیں
کتنے پیارے تھے وہ چوپال سجاتے ہوئے لوگ

آصف انجم

No comments:

Post a Comment