سکوتِ شب میں اندھیروں کو مسکرانے دے
بجھے چراغ تو پھر جسم و جاں جلانے دے
دکھوں کے خواب نما نیم وا دریچوں میں
وفورِ کرب سے تاروں کو جھلملانے دے
جلانا چاہے اگر چاہتوں کا سورج بھی
تُو اپنے سنگ نما روح کے سفینے کو
غمِ وفا کے سمندر میں ڈوب جانے دے
مِرے وجود میں کانٹوں کا ایک جنگل ہے
وہ اپنی ذات کے پھولوں میں کیوں سمانے دے
کسے خبر ہے کہ ہم دونوں اپنے قاتل ہیں
جو بے خبر ہیں، انہیں چیخ کر بتانے دے
ہوں منتظر، کہ کوئی آج آنے والا ہے
بقدرِ ذوق در و بام کو سجانے دے
گزرتے لمحوں کے ہمراہ ٹوٹتا ہے بدن
وصالِ یار کی لذت کا بار اٹھانے دے
میں پتھروں کی طرح چپ نہیں اے تیشہ بدست
وہ اور ہو گا تجھے ضرب جو لگانے دے
جب اپنے پاؤں میں رنجیر پڑ گئی ہے تو پھر
چلا تو جاتا نہیں، گرد ہی اڑانے دے
بھٹک رہا ہوں بگولوں کے رنگ میں نقاش
بدن تو خاک ہوا،۔ روح بھی جلانے دے
نقاش کاظمی
No comments:
Post a Comment