پھیلا کے سر پہ درد کی چادر چلا گیا
اک شخص میری روح پہ نشتر چلا گیا
مجھ سے خطا ہوئی تھی کہ ایسی مِرا خدا
ناراض ہو کے شہر سے باہر چلا گیا
شیشے لہولہان پڑے ہیں جو فرش پر
باہر کا شور اتنا گراں تھا کہ بہرِ امن
ہر شخص اپنی ذات کے اندر چلا گیا
ٹھہرا تھا آ کے ایک مسافر کبھی یہاں
پھر شہرِ تن کو آگ لگا کر چلا گیا
کابک کو خالی دیکھ کر کڑھتا ہے دل مِرا
جانے کہاں سفید کبوتر چلا گیا؟
سورج بھی تھک کے ڈوب گیا، شام ہو گئی
دن بھر جو میرے ساتھ تھا، وہ گھر چلا گیا
آخر سروں پہ دھوپ کی دیوار گر پڑی
اچھا ہوا میں سائے سے اٹھ کر چلا گیا
نقاش دل میں پیاس کی کیلیں گڑی رہیں
قدموں میں آ کے ایک سمندر چلا گیا
نقاش کاظمی
No comments:
Post a Comment