لڑکھڑا کے سنبھل رہے ہیں ہم
یعنی رستہ بدل رہے ہیں ہم
لاد کر دن کا بوجھ کاندھوں پر
چاندنی میں ٹہل رہے ہیں ہم
مثلِ گرد و غبارِ راہ سہی
رنگ اڑتے ہیں چار سمتوں سے
خوشبوؤں سے بہل رہے ہیں ہم
کیا کہیں، فاصلے پہ بیٹھے بھی
اک الاؤ میں جل رہے ہیں ہم
آپ نے حال ہی تو پوچھا ہے
اور اشکوں میں ڈھل رہے ہیں ہم
دستیابی کی مت اذیت پوچھ
کفِ افسوس مل رہے ہیں ہم
کس کا چھوڑا ہوا برتتے ہیں
کس کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں ہم
اور فردا سے نا بلد ہے کون
اور کس کس کا کل رہے ہیں ہم
صائمہ آفتاب
No comments:
Post a Comment