Sunday, 26 July 2020

لڑکھڑا کے سنبھل رہے ہیں ہم

لڑکھڑا کے سنبھل رہے ہیں ہم
یعنی رستہ بدل رہے ہیں ہم
لاد کر دن کا بوجھ کاندھوں پر
چاندنی میں ٹہل رہے ہیں ہم
مثلِ گرد و غبارِ راہ سہی
دیکھیۓ، ساتھ چل رہے ہیں ہم
رنگ اڑتے ہیں چار سمتوں سے
خوشبوؤں سے بہل رہے ہیں ہم
کیا کہیں، فاصلے پہ بیٹھے بھی
اک الاؤ میں جل رہے ہیں ہم
آپ نے حال ہی تو پوچھا ہے
اور اشکوں میں ڈھل رہے ہیں ہم
دستیابی کی مت اذیت پوچھ
کفِ افسوس مل رہے ہیں ہم
کس کا چھوڑا ہوا برتتے ہیں
کس کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں ہم
اور فردا سے نا بلد ہے کون
اور کس کس کا کل رہے ہیں ہم

صائمہ آفتاب

No comments:

Post a Comment